Sunday, 15 May 2016

سفرنامہ کوہالہ پل

2 comments





اور بالآخر کوہالہ بھی پہنچ گئے، ہوا یوں کہ دو ہفتے قبل میں نے اپنے کلاس فیلو اور ہر وقت جونک کی طرح ساتھ چمٹے رہنے والے دوست محمد ولید ارشد کو بتایا کہ کوہالہ ایک بہت پرفضا اور خوبصورت مقام ہے جہاں کی سیر کی جانی چاہیئے، میں چونکہ متعدد بار وہاں جاچکا ہوں اسلیئے بتادیا، اب ہوا یوں کہ صاحب کے دل و دماغ میں اس خیال نے چٹکی بھری کہ کوہالہ جانا چاہیئے وہ بھی بائیکس پر، تو جناب چٹکی اتنی زور کی تھی کہ بالآخر گذشتہ رات دو بجے اسلام آباد سے کوہالہ بذریعہ بائیکس ہم روانہ ہوئے، یاد رہے کہ کوہالہ پل اسلام آباد سے 80 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ اس سفر میں ہمارا ساتھ قاسم رضا، بختاور علی اور میرے چھوٹے بھائی اسامہ نے دیا، راستے میں رکتے رکاتے، کھلے آسمان، تاروں بھرے آسمان اور ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیتے ہم سوا چاربجے کشمیر چوک مری پہنچے جہاں تازہ دم اور جسم کو گرم کرنے کے لیے چائے پی، سفر پھر شروع ہوا اور پانچ بجے ایک مسجد میں ہم اللہ کے آگے سربسجود ہوئے۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد سورج کو ابھرتا دیکھتے، سیلفیاں اور تصاویر بناتے ہم 6 بجے کوہالہ برج کے نیچے موجود تھے، کوہالہ بنیادی طور پر ایک جگہ کا نام ہے جہاں سے آزاد کشمیر کی حدود شروع ہوتی ہے، ایک پل ہے اور اسکے نیچے دریا چنگھاڑتے ہوئے گزر رہا ہے، پانی کی رفتار اتنی شدید ہے کہ دور سے ہی خوف آتا ہے، بہرحال جب وہاں پہنچے تو ٹھنڈی ہوا اور صبح کے نظاروں نےتھکن دور کردی، کچھ وقت گزار کر مری کے مال روڈ پر ناشتہ کیا، 8 بج رہے تھے اور مال روڈ "آباد" ہونا شروع ہوا تھا، کچھ واک کی، اور واپسی کے لیے بائیکس کو کک لگائی، ایک جگہ راستہ بھولے، اب مرحلہ درپیش تھا ایک اونچی اور بالکل سیدھی روڈ کو سر کرنے کا، قاسم و ولید صاحبان تو بائیک کو لے کر اوپر پہنچے اور مجھ سمیت دو اور جوان ہانپتے کانپتے سڑک کے اوپر پہنچے، اتوار ہونے کے سبب رش بڑھ رہا تھا تو آہستہ آہستہ دھوئیں سے اپنی سانسوں کو "معطر" کرتے 11 بجے ہم واپس ہاسٹل الحمدللہ بخیر و عافیت پہنچے۔
بقول ولیدے "رل تے گئے آں پر چس بہت آئی ہے"۔

اب آخر میں کچھ سیاسی باتیں:
چونکہ ہماری حکومت نے سڑکیں بنانا اپنا فرضِ اولین سجمھا ہوا ہے، اگر بھوربن سے آگے کوہالہ تک سڑک کو بنا دیا جائے تو سفر بہت آسان ہوجائے گا۔
کوہالہ بلاشبہ ایک زبردست سیاحتی مقام ہے،حکومت وقت جتنی تشہیر اس وقت اپنے "کارناموں" کی کررہی ہے اسکا 10 فیصد بھی اسطرح کی پوائنٹس کی تشہیر پر لگادیا جائے تو بہت آمدنی ہوسکتی ہے۔


تحریر: سید طلحہٰ جاوید










2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔