Saturday, 16 July 2016

عزم، ہمت و استقامت کی داستان ۔۔۔ ترکی کی عوام

0 comments







گذشتہ شب ترکی کی عوام نے جس طرح سے اپنی آئینی و جمہوری حکومت کا دفاع کیا ہے موجودہ تاریخ میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ رات کے اندھیرے میں ترکی کی فوج کے ایک گروہ کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی، انقرہ و استنبول میں فوجی دستوں نے تمام عوامی مقامات، ریلوے اسٹیشنز، ائیرپورٹس، پل پر قبضہ کیا، سرکاری ٹی وی کی عمارت میں گھس کر نشریات کو بند کردیا، ملک میں تمام سوشل ویب سائٹس پر قدغن لگادی گئی کہ عوام سڑکوں پر نہ آجائیں اور انکا کھیل نہ بگاڑ دیں، کچھ وقت کو تو یوں لگا کہ یہ سازشی گروہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے گا، مگر پھر مرد آہن رجب طیب اردگان نے ایک سوشل سائٹ کے ذریعے اپنی عوام اور عالمی برادری کو مخاطب کیا اور پھر جو ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ترکی کی عوام سڑکوں پر نکل آئی، حواس باختہ فوجیوں نے فائر کھول دیئے، ٹینک گاڑیوں پر چڑھانا شروع کیے، گن شپ ہیلی کاپٹرز سے صدارتی محل، پارلیمنٹ اور عوام پر فائرنگ کی، اسی اثناء میں ایف 17 طیارے نے اس گن شپ ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ اور پھر وہ جو بارود کے ساتھ سیکولر ترکی کا خواب سجائے اقتدار پر قبضہ کرنے آئے تھے جابجا عوام کے ہاتھوں پٹتے، پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے اور شرم سے پانی پانی ہوتے نظر آئے۔




حقیقیت یہ ہے کہ اس کامیابی کا سہرا ترکی کی عوام کے سر ہے، جسطرح وہ گھروں سے نکلے، فوجیوں کا پرامن رہتے ہوئے مقابلہ کیا، نہ کوئی جیلاؤ گھیراؤ، نہ کوئی مار کٹائی، تعداد ہی اتنی تھی کہ سازشی ٹولہ بے بس ہوگیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق 17 پولیس اہلکاروں سمیت 161 لوگوں نے اس شب خون کا ناکام بناتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی ہے جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔
اس پانچ گھنٹے جاری رہنے والے کھیل میں ایک دفعہ پھر امریکہ کا دوغلا چہرہ کھل کر سامنے آیا ہے، ابتدا میں کہ جب لگ رہا تھا کہ فوج اقتدار پر قبضہ مکمل کرلے گی تو دفتر خارجہ کا بیان آیا کہ اگر قبضہ ہوجاتا ہے تو خون خرابہ نہیں ہونا چاہیئے گویا کہ انہیں منظور ہے مگر جب دیکھا کہ ترکی کی عوام نے اس سازش کو ناکام بنادیا تو پھر بیان آیا کہ ہم ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔کچھ اسی طرح کے مناظر و بیانات مختلف ممالک و تنظیموں کی طرف سے دیکھنے کو ملے، کہیں خوشی میں فائرنگ کی جارہی ہے، کہیں شادیانے بجا کر مارشل لاء لگنے پر مبارکباد دی جارہی ہے، مگر اللہ نے سب تدبیریں الٹی کرتے ہوئے فتح ایک مرتبہ پھر اردوگان صاحب کے مقدر میں ڈال دی۔
جہاں ایک طرف ترکی کی عوام نے اس شب خون کو روکا وہیں پوری دنیا کے اسلام پسندوں نے رب کے حضور رو رو کر اس سازش کو ناکام بنانے کی دعائیں مانگیں، ترکی اس وقت ایسا ملک ہے جس پر پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند جماعتوں نے اس شب خوں کو جمہوریت کے علاوہ اسلام پسند حکومت پر قبضہ کرنے کے مترادف سمجھا۔ 
بظاہر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ترکی کی حکومت اب ایک نئے جوش، جذبے و ولولے کے ساتھ کھڑی ہوگی، کیونکہ اردوگان نے ترکی کی عوام کو ایک ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا ہے کہ جسکے آگے اب کوئی نہیں ٹہر پارہا، چاہے وہ سیکولرز ہوں، فوجی گروہ ہوں یا دنیا کے شیطان صفت درندے نما ممالک کہ جنکا کام مسلم ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔


تحریر: سید طلحہٰ جاوید

Friday, 8 July 2016

سچا پاکستانی ۔۔ عبدالستار ایدھی

0 comments







دنیا کی سب سے بڑے فلاحی ادارے ایدھی ٹرسٹ کا سربراہ۔ کئی ملکی و بین الاقوامی ایوارڈز یافتہ، ہزاروں یتیموں کا کفیل عبدالستار ایدھی آج ہم میں نہیں رہا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک گاڑی سے آغاز کرنے والا ایدھی کا ادارہ آج دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولیںس کا ادارہ ہے، انسانیت کی خدمت کا کونسا شعبہ ہے جہاں ایدھی ٹرسٹ موجود نہیں، حد تو یہ ہے کہ جانوروں کے ہسپتال بھی ایدھی ٹرسٹ نے قائم کررکھے ہیں، ایدھی صاحب وہ فرد تھے کہ جنکی تعریف کے لیے الفاظ کم پڑجاتے ہیں۔
انکی وفات کی خبر سنکر میں سوچ رہا تھا کہ وہ عرصہ دراز سے بیمار تھے۔ چاہتے تو وہ بھی کہیں باہر جا کر اپنا علاج کرواسکتے تھے، اتنے بڑے ادارے کے سربراہ تھے چاہتے تو انکے نام پر بھی کئی آف شور کمپنیاں ہوتیں، چاہتے تو سوئس بینکوں میں انکے بھی اکاؤنٹ ہوتے۔ عالیشان کوٹھیاں اور بنگلے وہ بھی بنا سکتے تھے، مگر یہ سب کیوں نہیں کیا کیونکہ وہ ایک سچے پاکستانی تھے، انہیں تقریروں کے ذریعے یہ بات عوام کو باور کروانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی، اپنے عمل کے ذریعے انہوں نے یہ بات ثابت کی۔
ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنے ملک کی شہریوں اور انسانیت کی اس طرح خدمت کی کہ آج پورا ملک بلکہ پوری دنیا ایدھی کو خراجِ عقیدت پیش کررہی ہے۔
ایک طرف ایدھی تو دوسری طرف ہمارے حکمران۔
ایک طرف پاکستان کے ہی ایک ہسپتال میں سالہا سال علاج اور پھر وہیں وفات اور دوسری طرف ایک چھینک پر بھی لندن میں علاج۔
ایک طرف وفات کے بعد بھی اپنی ہی قائم کردہ ایمبولینس سروس میں سفر آخرت اور دوسری طرف کروڑوں خرچ کرکے بیرونِ ملک آنا جانا۔
ایک طرف ایک چھوٹا سا گھر دوسری طرف محلات، بینک بیلنس اور آف شور کمپنیز۔
ایک طرف اپنا سب کچھ اس وطن پر وار دینے والا شخص اور دوسری طرف اس ملک کے عوام کی خون پسینہ کی کمائی کو سوئس اکاؤینٹس میں جمع کرنے والے افراد۔
فیصلہ آپکا سچا پاکستانی کون..

تحریر: سید طلحہٰ جاوید