Friday, 28 October 2016

ہماری قومی بے حسی

1 comments






تحریر: سید طلحہٰ جاوید
27  اکتوبر کا دن تاریخ میں کچھ یوں یاد رکھا جاتا ہے کہ اس دن غاضب بھارتیوں نے وادیِ جنت نظیر کشمیر کے اوپر اپنا تسلط جمانے کے لیے چڑھائی کی تھی، ہزاروں کشمیریوں کا خون بہایا گیا تھا۔آج بھی پوری دنیا میں کشمیری اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، پاکستانی عوام بھی اس دن کو اپنی شہہ رگ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر مناتی ہے۔شہر شہر مظاہرے، بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھے اور سوشل میڈیا پر اپنی والز کو کالا کیے نوجوان بھارتی ظلم کو دنیا کے سامنے آشکار کرتے ہیں۔
اس سال 27   اکتوبر  کا دن ایک ایسے موقع پر آیا کہ جب تحریکِ آزادی کشمیر ایک نئی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے، برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیری اپنا خون مسلسل بہائے جارہے ہیں، سینکڑوں ہیں کہ جنکی دنیا پیلٹ گنوں سے اندھیر کردی گئی ہے،ہزاروں ہیں کہ ہسپتالوں میں پڑے کراہ رہے ہیں لیکن انکا جذبہِ حریت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ دن بدن اور لمحہ بہ لمحہ آتش فشاں ہی بنتا جارہا ہے۔
پاکستانی حکومتِ وقت کی طرف سے ایک میسج اور اخبارات میں اشتہارات یومِ سیاہ کے حوالے سے چھپوائے گئے۔ کچھ تنظیموں نے اپنے طور پر اس دن کو منایا۔مگر حیف ہے کہ بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کے ہمیں یہ دن جس طریقے سے منانا چاہیے تھا اس طریقے سے ہم نہیں مناسکے۔ وجہ ۔۔۔۔2 نومبر کا دھرنا جس نے پوری پاکستانی قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ خدشات اور وسوسوں نے ذہن میں خلفشار مچایا ہوا ہے، مانا کہ پانامہ لیکس ایک بہت بڑا ایشو، چوروں، ڈاکوؤں اور رشوت خوروں کا احتساب ہونا چاہیئے۔ مگر خان صاحب آپ نے پریس کانفرنسز کیں ایک دفعہ تو یومِ سیاہ کا ذکر کردیا ہوتا۔
آپ نے تو سانحہِ کوئٹہ کو بھی اپنے دھرنے سے مشروط کردیا۔ کاش اس ایک دن کو آپ اپنی سیاست ایک طرف رکھ کر کوئی دھرنا، کوئی کنسرٹ نما مظاہرہ کشمیریوں کے لیےبھی کردیتے۔ خیر آپ سے کیا گِلہ کہ آپ "نئے پاکستان" کی جنگ میں مصروف۔۔
میاں نواز شریف آپ تو وزیرِ اعظم ہیں پاکستان کے، کشمیری بھی ہیں۔ کیا ایک اشتہار سے آپ کشمیر کے اوپر ہونے والے مظالم سے اپنی جان چھڑائیں گے؟؟ آپ ہی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے، ساری سیاسی و عسکری قیادت کو مظفرآباد لے جاکر پوری دنیا کو پیغام دیتے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں، کشمیر کا یومِ سیاہ ہمارا یومِ سیاہ ہے۔ خیر آپ سے بھی گِلہ نہیں کہ آپ کی کرسی شائد اس وقت خطرے میں ہے اور آپ اسے بچانے کی فکر میں۔۔
حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب آپ تو اس کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں جسکا کام ہی کشمیریوں کو انکا حق دلانا ہے، کہ آپکے اوپر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ساری دنیا کے سامنے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دکھایا جائے۔ خیر گِلہ آپ سے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آج کل آپ حکومت اور اپنی سیٹ بچانے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔
گِلہ تو اصل میں مجھے اپنے آپ سے، جو یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے اور اس عوام سے ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ ؟؟ یہ حکمران و سیاستدان تو ہیں ہی آپس میں دست و گریباں ہونے کے لیے، مگر ہم تو کچھ کرلیتے۔اپنے شہر میں، دیہات میں، قصبے میں، یونین کاؤنسلز میں یومِ سیاہ کو مناتےاور اپنے کشمیری بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے جو پاکستان کے نام پر اپنی جانوں کو قربا ن کیئے جارہے ہیں۔
میں نے ایک خواب دیکھا کہ 27 اکتوبر کا دن آیا ہے، ساری سیاسی و عسکری قیادت نے لاکھوں عوام کے ہمراہ خونی لکیر (کنٹرول لائن) کو پار کیا ہے اور اپنی شہہ رگ کو ظالم درندوں بھارتیوں سے آزاد کروالیا ہے اور 28 اکتوبر کا دن جشنِ یومِ آزادی کشمیر کے طور پر پوری دنیا میں منایا گیا ہے۔
یاخدا اس خواب کو حقیقت میں بدل دے آمین

Monday, 24 October 2016

PTCL ... Hello to the Future

0 comments



“Hello to the future” ایک پرفریب نعرہ کہ جو “PTCL” کا نشانِ امتیاز ہے، بظاہر اس جملے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمپنی پاکستان کے اندر ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ کی جدید ترین سروس صارفین کو فراہم کررہی ہے، کہ جہاں آپ مستقبل میں جھانک کر اسے خوش آمدید کہہ سکتے ہیں۔ مگر حقیقت کیا ہے آئیے اس سے پردہ اٹھاتے ہیں۔۔
راقم الحروف نے چھ دن قبل "ایوو ونگل تھری جی" کو مبلغ دو ہزار روپے سے ریچارج کروایا کہ اس دن کوئی بہت ضروری ای میلز کرنی تھیں، گھر آکر ڈیوائس لیپ ٹاپ سے منسلک کی تو معلوم ہوا کہ سگنلز نہیں آرہے، ادارے کی شکایتی ہیلپ لائن 1218 پر کال کی(جسکے فی منٹ چارجزہوتے ہیں) تو وہاں سے اسمارٹ شاپ جانے کے احکامات صادر ہوئے، معلوم ہوا کہ اسمارٹ شاپ گھر سے 30 کلومیٹر دور نوابشاہ شہر سے دور ہے، بہرحال اگلی صبح وہاں جاٹپکے، ایک موصوفہ جنہیں اردو بولنے میں پریشانی درپیش تھی انہیں معاملہ بتایا تو جواب ملا کہ یہ معاملہ تو سکرنڈ(میرا آبائی شہر)والے ہی حل کریں گے، بھاگم بھاگ 30  کلومیٹر واپسی سکرنڈ پہنچے،ادارے کے آفس پہنچے تو ایک صاحب ٹانگیں میز پر بچھائے شانِ بے نیازی سے کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہم حل نہیں کرسکتے۔میں نے غصے بھرے لہجے میں پوچھا کہ پھر کون حل کرے گا تو کہا پتہ نہیں۔ بہرحال پھر 1218 کال کی، 7 منٹ بعد کال ملی،وہاں سے دلاسے و تسلیاں ملیں، قصہ مختصر کہ لگ بھگ 250 روپے کی کالز، 3 دفعہ آفسز کے چکر اور لامحدود ذلالت و پریشانی کے بعد وہی کام کیا جو نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ کچھ پیسوں میں ایک اینٹینا خریدا، چھت پر لگایا اور سگنلز آگئے۔

اس واقعے کو ضبطِ تحریر میں لانے کا مقصد انکی سروس کا اصلی چہرہ آشکار کرنا ہے۔ہمارے شہر میں دسیوں ایوو ڈیوائسز ہیں جنکے مسئلے کے حل کے لیے پوری تحصیل میں کوئی متعلقہ بندہ نہیں،نوابشاہ جاؤ تو وہاں سے ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ عملے کا رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ کال سینٹرز پر کال کرو تو وہاں انتظار کرنا ہوتا ہے۔ “PTCL” کی نجکاری کا مجھے تو کوئی خاص مقصد سمجھ نہیں آیا، ایسی سروس یا شائد اس سے بہتر سروس تو پرانا ادارہ بھی دے رہا تھا۔ بہرحال آپ سر دھنیں “Hello to the Future”

تحریر: سید طلحہٰ جاوید

Saturday, 16 July 2016

عزم، ہمت و استقامت کی داستان ۔۔۔ ترکی کی عوام

0 comments







گذشتہ شب ترکی کی عوام نے جس طرح سے اپنی آئینی و جمہوری حکومت کا دفاع کیا ہے موجودہ تاریخ میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ رات کے اندھیرے میں ترکی کی فوج کے ایک گروہ کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی، انقرہ و استنبول میں فوجی دستوں نے تمام عوامی مقامات، ریلوے اسٹیشنز، ائیرپورٹس، پل پر قبضہ کیا، سرکاری ٹی وی کی عمارت میں گھس کر نشریات کو بند کردیا، ملک میں تمام سوشل ویب سائٹس پر قدغن لگادی گئی کہ عوام سڑکوں پر نہ آجائیں اور انکا کھیل نہ بگاڑ دیں، کچھ وقت کو تو یوں لگا کہ یہ سازشی گروہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے گا، مگر پھر مرد آہن رجب طیب اردگان نے ایک سوشل سائٹ کے ذریعے اپنی عوام اور عالمی برادری کو مخاطب کیا اور پھر جو ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ترکی کی عوام سڑکوں پر نکل آئی، حواس باختہ فوجیوں نے فائر کھول دیئے، ٹینک گاڑیوں پر چڑھانا شروع کیے، گن شپ ہیلی کاپٹرز سے صدارتی محل، پارلیمنٹ اور عوام پر فائرنگ کی، اسی اثناء میں ایف 17 طیارے نے اس گن شپ ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ اور پھر وہ جو بارود کے ساتھ سیکولر ترکی کا خواب سجائے اقتدار پر قبضہ کرنے آئے تھے جابجا عوام کے ہاتھوں پٹتے، پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے اور شرم سے پانی پانی ہوتے نظر آئے۔




حقیقیت یہ ہے کہ اس کامیابی کا سہرا ترکی کی عوام کے سر ہے، جسطرح وہ گھروں سے نکلے، فوجیوں کا پرامن رہتے ہوئے مقابلہ کیا، نہ کوئی جیلاؤ گھیراؤ، نہ کوئی مار کٹائی، تعداد ہی اتنی تھی کہ سازشی ٹولہ بے بس ہوگیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق 17 پولیس اہلکاروں سمیت 161 لوگوں نے اس شب خون کا ناکام بناتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی ہے جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔
اس پانچ گھنٹے جاری رہنے والے کھیل میں ایک دفعہ پھر امریکہ کا دوغلا چہرہ کھل کر سامنے آیا ہے، ابتدا میں کہ جب لگ رہا تھا کہ فوج اقتدار پر قبضہ مکمل کرلے گی تو دفتر خارجہ کا بیان آیا کہ اگر قبضہ ہوجاتا ہے تو خون خرابہ نہیں ہونا چاہیئے گویا کہ انہیں منظور ہے مگر جب دیکھا کہ ترکی کی عوام نے اس سازش کو ناکام بنادیا تو پھر بیان آیا کہ ہم ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔کچھ اسی طرح کے مناظر و بیانات مختلف ممالک و تنظیموں کی طرف سے دیکھنے کو ملے، کہیں خوشی میں فائرنگ کی جارہی ہے، کہیں شادیانے بجا کر مارشل لاء لگنے پر مبارکباد دی جارہی ہے، مگر اللہ نے سب تدبیریں الٹی کرتے ہوئے فتح ایک مرتبہ پھر اردوگان صاحب کے مقدر میں ڈال دی۔
جہاں ایک طرف ترکی کی عوام نے اس شب خون کو روکا وہیں پوری دنیا کے اسلام پسندوں نے رب کے حضور رو رو کر اس سازش کو ناکام بنانے کی دعائیں مانگیں، ترکی اس وقت ایسا ملک ہے جس پر پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند جماعتوں نے اس شب خوں کو جمہوریت کے علاوہ اسلام پسند حکومت پر قبضہ کرنے کے مترادف سمجھا۔ 
بظاہر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ترکی کی حکومت اب ایک نئے جوش، جذبے و ولولے کے ساتھ کھڑی ہوگی، کیونکہ اردوگان نے ترکی کی عوام کو ایک ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا ہے کہ جسکے آگے اب کوئی نہیں ٹہر پارہا، چاہے وہ سیکولرز ہوں، فوجی گروہ ہوں یا دنیا کے شیطان صفت درندے نما ممالک کہ جنکا کام مسلم ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔


تحریر: سید طلحہٰ جاوید

Friday, 8 July 2016

سچا پاکستانی ۔۔ عبدالستار ایدھی

0 comments







دنیا کی سب سے بڑے فلاحی ادارے ایدھی ٹرسٹ کا سربراہ۔ کئی ملکی و بین الاقوامی ایوارڈز یافتہ، ہزاروں یتیموں کا کفیل عبدالستار ایدھی آج ہم میں نہیں رہا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک گاڑی سے آغاز کرنے والا ایدھی کا ادارہ آج دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولیںس کا ادارہ ہے، انسانیت کی خدمت کا کونسا شعبہ ہے جہاں ایدھی ٹرسٹ موجود نہیں، حد تو یہ ہے کہ جانوروں کے ہسپتال بھی ایدھی ٹرسٹ نے قائم کررکھے ہیں، ایدھی صاحب وہ فرد تھے کہ جنکی تعریف کے لیے الفاظ کم پڑجاتے ہیں۔
انکی وفات کی خبر سنکر میں سوچ رہا تھا کہ وہ عرصہ دراز سے بیمار تھے۔ چاہتے تو وہ بھی کہیں باہر جا کر اپنا علاج کرواسکتے تھے، اتنے بڑے ادارے کے سربراہ تھے چاہتے تو انکے نام پر بھی کئی آف شور کمپنیاں ہوتیں، چاہتے تو سوئس بینکوں میں انکے بھی اکاؤنٹ ہوتے۔ عالیشان کوٹھیاں اور بنگلے وہ بھی بنا سکتے تھے، مگر یہ سب کیوں نہیں کیا کیونکہ وہ ایک سچے پاکستانی تھے، انہیں تقریروں کے ذریعے یہ بات عوام کو باور کروانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی، اپنے عمل کے ذریعے انہوں نے یہ بات ثابت کی۔
ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنے ملک کی شہریوں اور انسانیت کی اس طرح خدمت کی کہ آج پورا ملک بلکہ پوری دنیا ایدھی کو خراجِ عقیدت پیش کررہی ہے۔
ایک طرف ایدھی تو دوسری طرف ہمارے حکمران۔
ایک طرف پاکستان کے ہی ایک ہسپتال میں سالہا سال علاج اور پھر وہیں وفات اور دوسری طرف ایک چھینک پر بھی لندن میں علاج۔
ایک طرف وفات کے بعد بھی اپنی ہی قائم کردہ ایمبولینس سروس میں سفر آخرت اور دوسری طرف کروڑوں خرچ کرکے بیرونِ ملک آنا جانا۔
ایک طرف ایک چھوٹا سا گھر دوسری طرف محلات، بینک بیلنس اور آف شور کمپنیز۔
ایک طرف اپنا سب کچھ اس وطن پر وار دینے والا شخص اور دوسری طرف اس ملک کے عوام کی خون پسینہ کی کمائی کو سوئس اکاؤینٹس میں جمع کرنے والے افراد۔
فیصلہ آپکا سچا پاکستانی کون..

تحریر: سید طلحہٰ جاوید

Sunday, 15 May 2016

سفرنامہ کوہالہ پل

2 comments





اور بالآخر کوہالہ بھی پہنچ گئے، ہوا یوں کہ دو ہفتے قبل میں نے اپنے کلاس فیلو اور ہر وقت جونک کی طرح ساتھ چمٹے رہنے والے دوست محمد ولید ارشد کو بتایا کہ کوہالہ ایک بہت پرفضا اور خوبصورت مقام ہے جہاں کی سیر کی جانی چاہیئے، میں چونکہ متعدد بار وہاں جاچکا ہوں اسلیئے بتادیا، اب ہوا یوں کہ صاحب کے دل و دماغ میں اس خیال نے چٹکی بھری کہ کوہالہ جانا چاہیئے وہ بھی بائیکس پر، تو جناب چٹکی اتنی زور کی تھی کہ بالآخر گذشتہ رات دو بجے اسلام آباد سے کوہالہ بذریعہ بائیکس ہم روانہ ہوئے، یاد رہے کہ کوہالہ پل اسلام آباد سے 80 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ اس سفر میں ہمارا ساتھ قاسم رضا، بختاور علی اور میرے چھوٹے بھائی اسامہ نے دیا، راستے میں رکتے رکاتے، کھلے آسمان، تاروں بھرے آسمان اور ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیتے ہم سوا چاربجے کشمیر چوک مری پہنچے جہاں تازہ دم اور جسم کو گرم کرنے کے لیے چائے پی، سفر پھر شروع ہوا اور پانچ بجے ایک مسجد میں ہم اللہ کے آگے سربسجود ہوئے۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد سورج کو ابھرتا دیکھتے، سیلفیاں اور تصاویر بناتے ہم 6 بجے کوہالہ برج کے نیچے موجود تھے، کوہالہ بنیادی طور پر ایک جگہ کا نام ہے جہاں سے آزاد کشمیر کی حدود شروع ہوتی ہے، ایک پل ہے اور اسکے نیچے دریا چنگھاڑتے ہوئے گزر رہا ہے، پانی کی رفتار اتنی شدید ہے کہ دور سے ہی خوف آتا ہے، بہرحال جب وہاں پہنچے تو ٹھنڈی ہوا اور صبح کے نظاروں نےتھکن دور کردی، کچھ وقت گزار کر مری کے مال روڈ پر ناشتہ کیا، 8 بج رہے تھے اور مال روڈ "آباد" ہونا شروع ہوا تھا، کچھ واک کی، اور واپسی کے لیے بائیکس کو کک لگائی، ایک جگہ راستہ بھولے، اب مرحلہ درپیش تھا ایک اونچی اور بالکل سیدھی روڈ کو سر کرنے کا، قاسم و ولید صاحبان تو بائیک کو لے کر اوپر پہنچے اور مجھ سمیت دو اور جوان ہانپتے کانپتے سڑک کے اوپر پہنچے، اتوار ہونے کے سبب رش بڑھ رہا تھا تو آہستہ آہستہ دھوئیں سے اپنی سانسوں کو "معطر" کرتے 11 بجے ہم واپس ہاسٹل الحمدللہ بخیر و عافیت پہنچے۔
بقول ولیدے "رل تے گئے آں پر چس بہت آئی ہے"۔

اب آخر میں کچھ سیاسی باتیں:
چونکہ ہماری حکومت نے سڑکیں بنانا اپنا فرضِ اولین سجمھا ہوا ہے، اگر بھوربن سے آگے کوہالہ تک سڑک کو بنا دیا جائے تو سفر بہت آسان ہوجائے گا۔
کوہالہ بلاشبہ ایک زبردست سیاحتی مقام ہے،حکومت وقت جتنی تشہیر اس وقت اپنے "کارناموں" کی کررہی ہے اسکا 10 فیصد بھی اسطرح کی پوائنٹس کی تشہیر پر لگادیا جائے تو بہت آمدنی ہوسکتی ہے۔


تحریر: سید طلحہٰ جاوید










Saturday, 7 May 2016

ماں کی محبت کا عالمی دن۔۔۔؟؟

0 comments


میں کیسے اس ماں کی محبت کو ایک دن کے لیے مخصوص کردوں جو مجھے اس دنیا میں لانے کا باعث بنی،
میں کیسے اس ماں کی محبت کو ایک دن کے نام کردوں جو بچپن میں آٹھ ماہ تک ساری رات مجھے گود میں لے کر ٹہلاتی تھی کہ میری طبیعت خراب تھی،
میں کیونکر ماں کی محبت کو ایک دن کے لیے مخصوص کروں جس نے اپنے منہ کا نوالہ میرے منہ میں ڈالا، جو عید پر ہم بھائیوں اور بہن کو نئے کپڑوں میں دیکھتی تو اسکی عید ہوجاتی،
میں کیسے ماں کی محبت کو ایک دن کے لیے مختص کروں کہ پانچ سال سے میں گھر سے باہر اور جب بھی مجھے کوئی چھوٹی سی بھی تکلیف ہوتو فوری کال آجاتی ہے کہ تمہاری طبیعت خراب ہے یا کوئی مسئلہ ہے، کہ جس ماں کی محنت و مشقت کی وجہ سے میں آج اس مقام پر موجود ہوں۔
یہ مغرب زدہ لوگ کہ جن کے کتے چوبیس گھنٹے انکے ساتھ ہوتے ہیں مگر یہ ماں باپ کو اولڈ ہاؤسز میں چھوڑ آتے ہیں انکا تو سمجھ آتا ہے کہ وہ سال میں ایک دن ہاتھوں میں گلدستے پکڑے اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ جائیں اور سال بھر کا قرض اتار دیں مگر ہم مسلمان ان ماں باپ کی محبتوں کو ایک دن کے لیے مختص کردیں کہ جنکے قدموں تلے جنت ہے۔ افسوس صد افسوس پتہ نہیں اور کتنی پستی ہمارا مقدر ہے۔۔!!
میرا ہر دن ماں کی محبت کا عالمی دن ہے،
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِيْ صَغِيْرَا -


تحریر: سید طلحہٰ جاوید


Wednesday, 20 April 2016

روحِ اقبال میں شرمندہ ہوں۔۔!!

0 comments






مصورِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال آج آپکا یوم 

وفات ہے، آپکو ہم سے بچھڑے آج 78 برس گزرنے کو ہیں، یہ بلاگ آج آپکے خواب پاکستان کے دارالحکومت میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں،جی ہاں آپکے خواب کی وجہ ہی سے تو آزاد سرزمیں پر میں سانس لے رہا ہوں، مگر آپکو پتہ ہے کہ ماسوائے چند لوگوں کے کسی کو آج کا دن یاد نہیں۔
صبح کے 8:35 منٹ ہوئے ہیں، ملک عزیز کے تمام بڑے قومی اخبارات کھول کر دیکھ لیے، ان تمام سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا پیجز اور اکاؤنٹس دیکھ لیے جنکی تقاریر بس آپ سے شروع ہوتی ہیں اور آپ پر آکر ختم، یقین مانیے ایک جگہ بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ آج آپکا یوم وفات ہے۔
آپ نے تو دو قومی نظریہ دیا تھا نہ، آپ نے ہی اس وقت قوم کو یہ بتایا تھا نہ کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، آپ نے ہی قائداعظم کو قائداعظم بننے کا حوصلہ دیا تھا نہ، مگر آج کے پاکستان میں آپ سے ہی یہ سلوک؟؟
کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں، آپکو پتہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں سالانہ اربوں روپے میڈیا میں اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں، آپکو پتہ ہے کہ آپکے پاکستان کا وزیراعظم اپنا بلڈپریشر چیک کروانے لندن پہنچ جاتا ہے، اگر چند روپے آپکو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے خرچ کردیتے تو کم از کم ہمیں تسلی ہوجاتی کہ چلیں تقاریر سے بڑھ کر بھی آپ ہمیں یاد ہیں۔
یہ ستم کم تھا کہ آپکے یومِ پیدائش پر سالہا سال سے جاری قومی تعطیل کو ختم کردیا گیا، یہ بات کیوں یاد نہیں رہتی کہ قومی تعطیلات کے دن اقوام عالم میں بہت حیثیت کے حامل ہوا کرتے ہیں، اگر ملکی ترقی آپکے یوم پیدائش کے دن پر چھٹی کرنے سے رک رہی ہے تو پھر 14 اگست کی تعطیل کو بھی ختم کردیں، عیدین پر تعطیلات بھی نہیں ہونی چاہیئیں۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا کہ دکھڑا کیسے بیان کروں، یہاں ہر فرد آپکے نام کو بس اپنے مقصد و فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے، دیکھیے گا کہ تمام سوشل میڈیا پیجز پر آپکی تصاویر اس وقت لگائی جائیں گی جو سب سے زیادہ رش کا وقت ہوتا ہے تاکہ پیج کی ریٹنگ بڑھے، آپکے پیغام سے ہمیں کیا لینا دینا، کونسی "خودی" اور کونسے آپکے "شاہین"۔۔ 
پتہ نہیں کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں ہم سے کہہ رہی ہوں گہ کون "اقبال"؟؟ ہم کسی ایسے فرد کو نہیں جانتے، اور ہم شرمار ہوئے کھڑے ہوں گے کہ مجرم تو ہم ہی تھے۔
اقبال رح میں آپ سے بحیثیت طالبعلم، آپکے نوجوان اور ایک پاکستانی شہری کےشرمندہ ہوں کہ اغیار کو تو ہم نے اپنی آنکھوں پر بٹھا لیا اور قوم کے محسنین کو ہم بھولتے چلے جارہے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم پھسلتے ہی چلے جارہے ہیں کہ اپنی مٹی کو چھوڑ کر سنگِ مرمر پر چل رہے ہیں۔اپنے رب کے حضور میرا یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ یااللہ ہمیں مزید اندھیاروں میں مت دھکیل اور پاکستان کو ویسا ہی پاکستان بنا دے جسکا خواب آپ نے دیکھا۔۔
جی ہاں دو قومی نظریئے والا پاکستان۔۔اسلامی،فلاحی و خوشحال پاکستان۔۔!!


تحریر: سید طلحہٰ جاوید