Tuesday, 15 March 2016

موبائل کا سودا یا غیرت کا۔۔۔!!

2 comments

                                                                            
حسب معمعول زندگی سے بھرپور ایک صبح خنکی لیے منتظر تھی۔ اتوار ہونے کے سبب آنکھ ذرا دیر سے کھلی۔ لیپ ٹاپ کھول کر ملکی حالات کا جائزہ لینے کے لیے ملک کے سب سے "معتبر" اخبار کا فرنٹ پیج کھولا تو یوں لگا جیسے کسی نے زناٹے دار تھپڑ منہ پر جڑ دیا ہو، گال کو سہلاتے اور دل کو دلاسہ دیتے ہوئے ایک اور بڑے اخبار کو کھولا تو دوسرا تھپڑ منہ پر پڑا اور پھر ایک کے بعد ایک۔۔ گزشتہ چند سالوں سے میڈیا کی آزادی و حقوق نسواں کے نام پر پھیلائی جانے والی بے حیائی کا آخری درجہ اور ہماری اعلیٰ اقدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے آج کے قومی اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے اشتہارات ایک سوچی سمجھی سازش تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی کے لفظ سے پریشان چند گروہ سیکولر پاکستان بنانے کے خواہش میں گرداں لوگ بے حیائی و فحاشی کو پھیلاتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کے حصول  میں کوشاں ہیں۔
بے حیائی پھیلانے کی سزا سخت ہے، رب العالمین کے احکام و نبی آخرالزمان محمد ﷺ کے فرمان سے روگردانی کی سزائیں ہی تو ہمارے ملک میں ہمیں نہیں مل رہی اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کلمہ طیبہ کے نام پر ملنے والا یہ ملک، تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کا شاہد یہ ملک، عظیم قربانیوں کے صلے میں ملنے والا یہ ملک کیا انہی اشتہارات کے لیے بچا تھا۔ کیا اسی لیے ہماری ماؤں اور بہنوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں کہ ایک سستے سے موبائل کے لیے پوری قوم کی غیرت کا سودا کیا جائے گا۔ کیا ہماری عفت مآب بہنیں جو اپنی عزت بچانے کی خاطر کنوؤں میں کود پڑیں ہمیں معاف کردیں گی۔ کچھ تو خیال کیجیے کچھ تو رحم کھائیے ملک پر، ہمارے ملک کے حکمران اپنے آپ کو قائد اعظم رح کا جانشین قرار دیتے ہیں کیا ایسا تھا جناح کا پاکستان؟؟
اور ہاں ایک سوال آپ سے بھی ۔۔!! کیا آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بس چند مذمتی بیانات سے، ایک دو ٹوئٹر ٹرینڈز بنا دینے سے، اخبارات کو برا کہہ دینے سے یہ آفت ہمارے گلوں سے ہٹ جائے گی۔ ہرگز نہیں حضورِ والا ہرگز نہیں۔ اب بھی اگر فحاشی کے اس سیلاب کے آگے سنجیدہ ہوکر بند نہ باندھنے کی کوشش کی گئی تو یہ سیلاب سب کچھ بہا لے جائے گا، کچھ بھی نہیں بچے گا، نہ ہماری ثقافت، نہ ہماری اقدار، نہ ہماری روایات اور شائد نہ ہمارے ملک کی نظریاتی اساس۔۔ اور آئندہ آنے والی نسل ہمارے گریبان میں ہاتھ دالے کھڑے ہم سے جواب طلب کررہی ہیوگی اور ہمارے پاس خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔۔ کچھ بھی نہیں۔
اور ہاں ایک گزارش ان مٹھی بھر افراد اور اداروں سے جو پاکستان کی نظریاتی اساسوں پر ضربِ کاری لگارہے ہیں، اگر آپ کو "اسلامی" پاکستان اس قدر ہی ناپسند ہے تو کسی روشن خیال ملک پیں جاکر رہائش اختیار کرلیں جہاں آپکی بھی بیٹی یا بہن اسی طرح کسی روزنامے کے صفحہ اول پر کوئی سستی سی چیز کا سودا کررہی ہو، مگر خدارا ہم اسلام کے نام لیواؤں کا یہاں چھوڑ دیجیے، ہماری غیرت کا سودا 3000 کے موبائل سے نہ کیجیے۔
تو جنابِ وزیر اعظم صاحب ایسا ہے آپکا لبرل پاکستان جسکے قومی اخبارات کے صفحہ اول پر حوا کی بیٹی ایک موبائل کی خاطر یوں زینت بنا کرے گی۔ جس لبرل پاکستان میں جس کا جو جی چاہے گا وہ کرے گا۔ جس میں سود کے بھی حلال ہونے کی گنجائش پیدا کی جائے گی۔  جناب کچھ تو خدا کا خوف کھائیے کیا کرنا چاہتے ہیں آپ؟ کس کو خوش کررہے ہیں یہ سب کرکے؟ اور ہاں اگر آپ اس واقعے پر بھی کوئی مذمتی بیان یا کمیٹی بنادیتے ہیں تو ان پرویز رشید نامی فرد کا ہم کیا کریں؟ وہ پیمرا نامی ایک ادارہ کس مرض کی دوا ہے؟ آخر کیوں جب واقعہ پیش آجاتا ہے تو اس پر ردعمل دیا جاتا ہے اسے پہلے سے روکنے کی کیوں سبیل نہیں کی جاتی؟ آخر کیوں آپکی حکومت مسلمانوں کے ہی ملک میں، آپ ہی کے جناح کے ملک میں مسلمانوں کو روز اذیت دے رہے ہیں؟ کیوں ہم سے ہماری اقدار چھین رہے ہیں؟ کوئی جواب۔۔!!

شائد ہماری غیرت کا امتحان لیا جارہا ہو کہ ذرا دیکھیں تو سہی کتنا دم باقی ہے اس مردہ قوم میں۔۔ اٹھ جائیں، جاگ جائیں ورنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔