Friday, 28 October 2016

ہماری قومی بے حسی

1 comments






تحریر: سید طلحہٰ جاوید
27  اکتوبر کا دن تاریخ میں کچھ یوں یاد رکھا جاتا ہے کہ اس دن غاضب بھارتیوں نے وادیِ جنت نظیر کشمیر کے اوپر اپنا تسلط جمانے کے لیے چڑھائی کی تھی، ہزاروں کشمیریوں کا خون بہایا گیا تھا۔آج بھی پوری دنیا میں کشمیری اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، پاکستانی عوام بھی اس دن کو اپنی شہہ رگ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر مناتی ہے۔شہر شہر مظاہرے، بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھے اور سوشل میڈیا پر اپنی والز کو کالا کیے نوجوان بھارتی ظلم کو دنیا کے سامنے آشکار کرتے ہیں۔
اس سال 27   اکتوبر  کا دن ایک ایسے موقع پر آیا کہ جب تحریکِ آزادی کشمیر ایک نئی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے، برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیری اپنا خون مسلسل بہائے جارہے ہیں، سینکڑوں ہیں کہ جنکی دنیا پیلٹ گنوں سے اندھیر کردی گئی ہے،ہزاروں ہیں کہ ہسپتالوں میں پڑے کراہ رہے ہیں لیکن انکا جذبہِ حریت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ دن بدن اور لمحہ بہ لمحہ آتش فشاں ہی بنتا جارہا ہے۔
پاکستانی حکومتِ وقت کی طرف سے ایک میسج اور اخبارات میں اشتہارات یومِ سیاہ کے حوالے سے چھپوائے گئے۔ کچھ تنظیموں نے اپنے طور پر اس دن کو منایا۔مگر حیف ہے کہ بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کے ہمیں یہ دن جس طریقے سے منانا چاہیے تھا اس طریقے سے ہم نہیں مناسکے۔ وجہ ۔۔۔۔2 نومبر کا دھرنا جس نے پوری پاکستانی قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ خدشات اور وسوسوں نے ذہن میں خلفشار مچایا ہوا ہے، مانا کہ پانامہ لیکس ایک بہت بڑا ایشو، چوروں، ڈاکوؤں اور رشوت خوروں کا احتساب ہونا چاہیئے۔ مگر خان صاحب آپ نے پریس کانفرنسز کیں ایک دفعہ تو یومِ سیاہ کا ذکر کردیا ہوتا۔
آپ نے تو سانحہِ کوئٹہ کو بھی اپنے دھرنے سے مشروط کردیا۔ کاش اس ایک دن کو آپ اپنی سیاست ایک طرف رکھ کر کوئی دھرنا، کوئی کنسرٹ نما مظاہرہ کشمیریوں کے لیےبھی کردیتے۔ خیر آپ سے کیا گِلہ کہ آپ "نئے پاکستان" کی جنگ میں مصروف۔۔
میاں نواز شریف آپ تو وزیرِ اعظم ہیں پاکستان کے، کشمیری بھی ہیں۔ کیا ایک اشتہار سے آپ کشمیر کے اوپر ہونے والے مظالم سے اپنی جان چھڑائیں گے؟؟ آپ ہی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے، ساری سیاسی و عسکری قیادت کو مظفرآباد لے جاکر پوری دنیا کو پیغام دیتے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں، کشمیر کا یومِ سیاہ ہمارا یومِ سیاہ ہے۔ خیر آپ سے بھی گِلہ نہیں کہ آپ کی کرسی شائد اس وقت خطرے میں ہے اور آپ اسے بچانے کی فکر میں۔۔
حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب آپ تو اس کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں جسکا کام ہی کشمیریوں کو انکا حق دلانا ہے، کہ آپکے اوپر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ساری دنیا کے سامنے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دکھایا جائے۔ خیر گِلہ آپ سے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آج کل آپ حکومت اور اپنی سیٹ بچانے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔
گِلہ تو اصل میں مجھے اپنے آپ سے، جو یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے اور اس عوام سے ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ ؟؟ یہ حکمران و سیاستدان تو ہیں ہی آپس میں دست و گریباں ہونے کے لیے، مگر ہم تو کچھ کرلیتے۔اپنے شہر میں، دیہات میں، قصبے میں، یونین کاؤنسلز میں یومِ سیاہ کو مناتےاور اپنے کشمیری بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے جو پاکستان کے نام پر اپنی جانوں کو قربا ن کیئے جارہے ہیں۔
میں نے ایک خواب دیکھا کہ 27 اکتوبر کا دن آیا ہے، ساری سیاسی و عسکری قیادت نے لاکھوں عوام کے ہمراہ خونی لکیر (کنٹرول لائن) کو پار کیا ہے اور اپنی شہہ رگ کو ظالم درندوں بھارتیوں سے آزاد کروالیا ہے اور 28 اکتوبر کا دن جشنِ یومِ آزادی کشمیر کے طور پر پوری دنیا میں منایا گیا ہے۔
یاخدا اس خواب کو حقیقت میں بدل دے آمین

Monday, 24 October 2016

PTCL ... Hello to the Future

0 comments



“Hello to the future” ایک پرفریب نعرہ کہ جو “PTCL” کا نشانِ امتیاز ہے، بظاہر اس جملے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمپنی پاکستان کے اندر ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ کی جدید ترین سروس صارفین کو فراہم کررہی ہے، کہ جہاں آپ مستقبل میں جھانک کر اسے خوش آمدید کہہ سکتے ہیں۔ مگر حقیقت کیا ہے آئیے اس سے پردہ اٹھاتے ہیں۔۔
راقم الحروف نے چھ دن قبل "ایوو ونگل تھری جی" کو مبلغ دو ہزار روپے سے ریچارج کروایا کہ اس دن کوئی بہت ضروری ای میلز کرنی تھیں، گھر آکر ڈیوائس لیپ ٹاپ سے منسلک کی تو معلوم ہوا کہ سگنلز نہیں آرہے، ادارے کی شکایتی ہیلپ لائن 1218 پر کال کی(جسکے فی منٹ چارجزہوتے ہیں) تو وہاں سے اسمارٹ شاپ جانے کے احکامات صادر ہوئے، معلوم ہوا کہ اسمارٹ شاپ گھر سے 30 کلومیٹر دور نوابشاہ شہر سے دور ہے، بہرحال اگلی صبح وہاں جاٹپکے، ایک موصوفہ جنہیں اردو بولنے میں پریشانی درپیش تھی انہیں معاملہ بتایا تو جواب ملا کہ یہ معاملہ تو سکرنڈ(میرا آبائی شہر)والے ہی حل کریں گے، بھاگم بھاگ 30  کلومیٹر واپسی سکرنڈ پہنچے،ادارے کے آفس پہنچے تو ایک صاحب ٹانگیں میز پر بچھائے شانِ بے نیازی سے کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہم حل نہیں کرسکتے۔میں نے غصے بھرے لہجے میں پوچھا کہ پھر کون حل کرے گا تو کہا پتہ نہیں۔ بہرحال پھر 1218 کال کی، 7 منٹ بعد کال ملی،وہاں سے دلاسے و تسلیاں ملیں، قصہ مختصر کہ لگ بھگ 250 روپے کی کالز، 3 دفعہ آفسز کے چکر اور لامحدود ذلالت و پریشانی کے بعد وہی کام کیا جو نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ کچھ پیسوں میں ایک اینٹینا خریدا، چھت پر لگایا اور سگنلز آگئے۔

اس واقعے کو ضبطِ تحریر میں لانے کا مقصد انکی سروس کا اصلی چہرہ آشکار کرنا ہے۔ہمارے شہر میں دسیوں ایوو ڈیوائسز ہیں جنکے مسئلے کے حل کے لیے پوری تحصیل میں کوئی متعلقہ بندہ نہیں،نوابشاہ جاؤ تو وہاں سے ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ عملے کا رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ کال سینٹرز پر کال کرو تو وہاں انتظار کرنا ہوتا ہے۔ “PTCL” کی نجکاری کا مجھے تو کوئی خاص مقصد سمجھ نہیں آیا، ایسی سروس یا شائد اس سے بہتر سروس تو پرانا ادارہ بھی دے رہا تھا۔ بہرحال آپ سر دھنیں “Hello to the Future”

تحریر: سید طلحہٰ جاوید